Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر



پری کا آنا اس کے کمرے میں اس کے لیے بھی غیر متوقع تھا، وہ بھی حیران نظروں سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ لمحے بھر کو دونوں کی نگاہیں ملی تھیں، پری نے فوراً ہی نگاہیں نیچے کرلیں۔ طغرل کی نگاہیں ہنوز اس کے چہرے پر تھیں، الجھی ہوئی بے چین آنکھیں… ! لمحے بھر کو ان کی نگاہیں ملی تھیں اور اس لمحے بھر میں اس نے جان لیا تھا کہ پری کی نگاہوں میں کتنی سردمہری اور لاتعلقی تھی۔
گویا ناشناسی ہی ناشناسی۔

آنکھیں ! جو دل کا آئینہ ہوتی ہیں…! جو دل کا وہ بھید بتاتی ہیں جس سے زبان ناآشنا رہتی ہے۔

”طبیعت کیسی ہے آپ کی؟“ بہت پر تکلف انداز تھا اس کا۔

”ٹھیک … ٹھیک ہے۔“ اس نے احساسات کو جھٹکتے ہوئے خوش دلی سے کہا۔

”دادی جان یہاں آئی تھیں مگر… یہاں تو نہیں ہیں؟“ وہ سوچ رہی تھی اس کو صلواتیں سنا کر وہ یہاں آئی ہوں گی اور وہ ان کی موجودگی میں اس کی طبیعت پوچھ کر چلی آئے گی، اس طرح دادی خوش ہوجائیں گی۔
(جاری ہے)

مما عادلہ اور عائزہ کو بھی کچھ تجسس نہ رہے گا کیونکہ وہ تینوں اس کا یہاں رہنا پسند نہیں کرتی تھیں، ان کی اول روز سے ہی یہی خواہش تھی کہ وہ اس گھر سے چلی جائے، یہاں نہ رہے۔ یہ دادی کی محبت بھری مہربانی تھی جو وہ یہاں موجود تھی، وہ اب بھی ایسے کسی موقعے کی تلاش میں رہتی تھیں جو انہیں میسر آئے اور وہ اس کو ذلیل و خوار کرکے گھر سے نکال باہر کریں۔

”آپ کا مطلب ہے، میں جادو گر ہوں… دادو کو میں نے غائب کردیا ہے، جو وہ تمہیں یہاں نظر نہیں آرہی تھیں؟“

”میرا یہ مطلب نہیں تھا۔“ وہ تپ کر بولی اور جانے لگی۔

”جا کہاں رہی ہو؟ دادی اپنے کمرے میں نماز ادا کرنے گئی ہیں، وہ تو جلدی نہیں آئیں گی، مجھے بھوک لگ رہی ہے لنچ تو پیش کرتی جاوٴ۔“ وہ خاموشی سے ٹرالی کی طرف بڑھی ڈش کا ڈھکن ہٹا کر پلیٹ میں دلیہ نکالا، پیالے میں سوپ ڈال کر چمچ سمیت ٹرے میں رکھ کر اس کے قریب ٹرے رکھ دی تھی۔
عقبی جانب رکھے فریج سے منرل واٹر کی بوتل اور گلاس بھی قریب ہی اس کے رکھ دیا تھا اور پھر پلٹنے لگی۔ تو اس نے پھر ٹوک دیا۔

”کہاں جارہی ہیں؟“

”اور کچھ چاہیے آپ کو …؟“ اس نے پلٹ کر پوچھا۔

”ہاں…!“ وہ سنجیدہ تھا۔

”کیا…؟“

”زندگی…!“

”کیا مطلب…! آپ زندہ سلامت دکھائی دے رہے ہیں۔“ 

”یقینا … مگر آگے کچھ پتا نہیں۔

”آگے کا پتا تو کسی کو بھی نہیں ہے۔“

”میرا مطلب ہے…“ اس نے اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔

”ایک چمچ دلیہ، ایک چمچ سوپ پہلے آپ کھا کے دکھائیں پھر … میں کھاوٴں گا، دشمن پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے، کیا معلوم …“

”شٹ اپ… شٹ اپ! آپ کا مطلب ہے میں اس میں زہر ملا کر لائی ہوں؟“ مارے غصے کے وہ لال بھبھوکا ہوگئی۔

”میں بھری جوانی میں مرنا نہیں چاہتا۔“ اس نے خوف زدہ ہونے کی ناکام اداکاری کی، اس کی آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں۔

”بھری جوانی میں نہیں، بھرے بڑھاپے میں مریں گے آپ۔“

”آمین، تم دعا بھی بددعا کی طرح دیتی ہو۔“ وہ اس کی حالت دیکھ کر بے اختیار ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔

”غصہ مت ہو پلیز! صرف ایک بات ایمان داری سے بتادو؟ کھانا بناتے وقت تمہارا دل چاہتا ہے نا کہ زہر ملادو؟“ ایک پل کو تو اس کا دل بند سا ہوا یہ سوچ کر کہ وہ کتنی سچائی سے اس کے دل کا بھید پاگیا تھا۔
وہ سن سی رہ گئی۔

”میں نے ایمان داری سے کہا ہے، ڈنڈی مت مارنا۔“ وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں یقین کی شمعیں روشن تھیں اور وہ انکار و اقرار کی حالت میں نہ تھی۔

”اگر مجھے آپ کو زہر دینا ہوتا تو پہلے دن ہی دیتی۔“

”یہ بے ایمانی ہے، یہ دوغلا جواب نہیں چاہیے مجھے۔“

”اگر آپ کو کھانا ہے تو کھائیں وگرنہ باہر ہوٹل موجود ہیں اور وہاں آپ کا کوئی دشمن بھی نہیں ہے۔


”ٹھیک ہے میں تو مذاق کررہا تھا۔ جب تک میں کھاوٴں تب تک تم بیٹھو نا یہاں۔ دراصل تنہائی میں مجھ سے کھایا نہیں جاتا ہے۔“ شرافت سے درخواست کی گئی تھی، وہ خاموشی سے ریک میں رکھی کتابیں درست کرنے لگی، تب ہی عجیب سی آواز پر پلٹ کر دیکھا، طغرل کے منہ سے سفید جھاگ نکل رہے تھے ، وہ بری طرح تڑپ رہا تھا۔

لمحے بھر میں اس کے حواسوں پر بجلی سی گرگئی تھی۔
پری اس کو دیکھتی رہ گئی وہ آنکھیں کھولے ساکت پڑا تھا، ہونٹوں کے بائیں کنارے سے سفید جھاگ نکل رہے تھے جب کہ سوپ کے پیالے میں پڑے چمچ پر اس کی گرفت اب ڈھیلی پڑگئی تھی۔ وہ ایک کے بعد دوسرا چمچ لے رہا تھا کہ…

”اوہ! یہ کیا ہوا… کیا ایسا ممکن ہے سوچ اتنی سرعت سے حقیقت میں اثرانگیز ثابت ہو؟“ وہ خوف زدہ نگاہوں سے ساکت پڑے طغرل کو دیکھ رہی تھی، دل پوری رفتار سے دھڑک رہا تھا، چند سیکنڈ وہ بدحواس انداز میں اس کو دیکھتی رہی تھی پھر ایک دم ہی وہاں سے بھاگتی ہوئی دادی کے پاس آئی تھی جو آرام سے نیم دراز بہشتی زیور پڑھ رہی تھیں اس کے اس طرح وہاں آنے پر انہوں نے چونک کر کتاب رکھی تھی۔

”کیا ہوا!یہ چہرے پر ہوائیاں کیوں اڑ رہی ہیں؟“ عینک درست کرتے ہوئے دادی نے پریشانی سے پوچھا۔

”وہ … طغرل بھائی کو … کچھ ہوگیا ہے…“ وہ گھبرائے ہوئے انداز میں گویا ہوئی، دادی گھبرا کر اٹھ گئیں۔

”الٰہی خیر! ارے کیا ہوا میرے بچے کو…؟ مولا! رحم کرنا۔“ فکر و پریشانی میں ان کے گھٹنوں کے درد نے بھی کوئی احتجاج نہیں کیا۔
وہ تیز تیز چلتی ہوئی نکلیں تو پری بھی ان کے پیچھے حواس باختہ سی چل پڑی، اس وقت اس کے ستے ہوئے چہرے پر فکر و پریشانی کی چھاپ تھی، وسوسے اندیشے کسی ناگ کی طرح ڈس رہے تھے۔ دادی کی آواز سن کر صباحت اور عادلہ بھی طغرل کے کمرے کی طرف بڑھی تھیں۔ سب سے پہلے دادی اندر داخل ہوئی تھیں، ان کے پیچھے صباحت، عادلہ اور پھر پری داخل ہوئی تھی بے جان قدموں سے۔

”ہیں…! “ کمرے میں داخل ہوتے ہی دادی نے حسب عادت ”ہیں“ لفظ کہا تھا۔ یہ ان کا پسندیدہ لفظ تھا۔ غم و خوشی، استعجاب و مسرت کوئی بھی موقع ہو وہ اسی لفظ سے اپنے جذبات کا اظہار کرتی تھیں۔ ”یہ کیا تماشا ہے؟“ اب ان کے لفظوں میں حیرت و استعجاب نمایاں تھا۔ پری نے دادی کے چہرے پر اطمینان و خوشی کے تاثرات دیکھے تو فوراً ان کی پشت سے سر نکال کر دیکھا اور حیران رہ گئی یہ دیکھ کر کہ وہ اطمینان سے تکیوں کے سہارے نیم دراز دلیہ کھا رہا تھا، چہرے پر بھی کسی تکلیف کے نشان نہیں تھے۔

”دادی جان! آئیے نا!آنٹی! آئیں بیٹھیں۔“ وہ اطمینان سے کہہ رہا تھا بہت سنجیدگی تھی اس کے لہجے میں کسی شرارت و شوخی کا معمولی سا بھی شائبہ تک نہ تھا۔ پری حیران تھی۔

کچھ دیر پہلے والا منظر سچ تھا یا جھوٹ…!

”پری بتارہی تھی… خاکم بہ دہن ، تمہیں کچھ ہوگیا ہے؟“ وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے سخت لہجے میں کہہ رہی تھیں۔

”مثلاً … کیا ہوگیا ہے مجھے؟“ اس کی سنجیدگی میں چھپی شوخی پری کی حساس طبیعت سے مخفی نہ رہ سکی تھی۔
اس نے سلگتی نظروں سے اس کو گھورا، وہ بھی اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا، ایک پل کو نگاہیں چار ہوئیں تو وہ بے اختیار ہنس پڑا۔

”کیا ہوا ہے پری! تم نے بتایا ہی نہیں تھا۔“ دادی نے پوچھا۔

”آپ نے پوچھا ہی نہیں ہوگا۔“ صباحت نے کہا۔ ”اس کے چہرے کی رنگت بدلی ہوئی تھی ، سخت بدحواس تھی۔ میں سمجھ گئی، کوئی بات ہے اور میں اٹھ کر چلی آئی۔
“ دادی پری اور طغرل کو دیکھتے گویا ہوئیں۔ 

”پری! کیا ہوا تھا؟ دادی نے پری سے کہا جو ضبط کیے کھڑی تھی۔ جن نظروں سے پل بھر کو اس نے پری کی طرف دیکھا تھا وہ سمجھ گئی تھی اس نے وہی روش اختیار کرلی ہے جس کے سبب وہ آسٹریلیا جانے سے قبل دادی سے اس کو ڈانٹ و مار کھلوایا کرتا تھا۔
اب بھی دادی سمیت صباحت اور عادلہ کی نظریں اس پر تھیں جب کہ وہ کھانے میں مگن تھا۔“

”تمہاری خاموشی بتا رہی ہے تم نے غلط کیا ہے۔“ عادلہ چیونگم چباتی ہوئی طنزیہ لہجے میں پری سے مخاطب ہوئی۔

”کچھ بتاوٴ گی بھی یا اس طرح منہ بند کرکے کھڑی رہو گی؟“

”دادی جان! ان سے ہی پوچھ لیجیے۔“و ہ غصہ سے پیر پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔

”پری کی بدمزاجی نامعلوم کب ختم ہوگی؟ سیدھے انداز میں جواب دیا جاسکتا تھا مگر وہ کب بڑوں کی عزت کرنا جانتی ہے۔ “ صباحت نے بڑے نرم انداز میں طغرل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

”بہو! تم طغرل کو بھی کم نہ سمجھو، ضرور اس نے کوئی شرارت کی ہے۔ میں جانتی ہوں، پری کبھی جھوٹ نہیں بولتی ہے۔“

وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتی شرارت محسوس کرچکی تھیں۔

”چھوٹی سی شرارت کی ہے دادی جان! وہ آج بھی اتنی ہی بے وقوف ہے جتنی کل تھی ۔“ وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتا ہنس کر گویا ہوا تھا۔

###

رجاء ایگزمز سے فارغ ہوئی تو رضیہ نے اس کی شادی کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ ان کی نند جو رجاء کی ساس بھی تھیں، وہ شادی کی تاریخ لینے آئیں ساتھ مٹھائی بھی تھی۔ رضیہ نے سارے محلے میں مٹھائی تقسیم کی اور اب ایک ڈبا وہ ماہ رخ کے لیے لے جارہی تھیں۔
ماہ رخ سے ان کی دوستی گہری ہوگئی تھی، اکثر وہ ان کے گھر آنے لگی تھیں۔ حاجرہ اور محلے کی وہ عورتیں جو ان کے بارے میں غلط رائے رکھتی تھیں، شروع شروع میں رضیہ کے ہاں انہیں آتے دیکھ کر پریشان و حیرانی میں مبتلا ہوکر باتیں بنانے لگی تھیں مگر رضیہ کے گھریلو ماحول سے واقفیت کے باعث اور پھر ماہ رخ سے ہونے والی ملاقاتوں نے اس کو قریب سے جاننے کا موقع دیا تھا ان لوگوں کو اپنے رویے اور باتوں پر افسوس ہونے لگا، اب وہ ماہ رخ کا احترام کرنے لگی تھیں۔
حسب عادت ماہ رخ نے پرتپاک انداز میں ان کا استقبال کیا تھا۔

”آپا! مٹھائی لائی ہیں پھر تو کوئی خوش خبری؟“ وہ ان کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔

”رجاء کی شادی کی تاریخ طے کردی ہے اسی خوشی میں مٹھائی۔“

”مبارک ہو۔ “ انہوں نے گلے لگا کر مبارک باد دی۔

”دعا کرنا رب اس کے نصیب اچھے کرے، وہ اپنے گھر میں خوش رہے۔“

”ان شاء اللہ ! وہ بہت خوش رہے گی، بھلا رجاء جیسی پیاری لڑکی کو کوئی دکھی کیسے رکھ سکتا ہے؟“ ان کے انداز میں اپنائیت تھی۔

”تم نے مجھے بہن بنایا ہے، اب بہن کا حق ادا کرنا۔ رجاء کی شادی کی تیاریوں میں میر مدد کرنی ہے، پہلے بھی بہت مدد کی ہے، وردہ کے عزائم اگر تم نہ بھانپ لیتیں تو … آج ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔“ وہ ممنون لہجے میں ان کے شانے پرہاتھ رکھ کر مخاطب ہوئی تھیں۔ ”میں جب بھی یہ سوچتی ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے فرشتہ بناکر تمہیں ہماری مدد کے لیے بھیجا۔
تم بہت نیک ہو ماہ رخ! میری خواہش ہے رجاء کے جہیز کے سامان پر تمہارے بابرکت ہاتھ لگیں۔“

”آپا! یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟“ ان کے چہرے کی رنگت متغیر ہوگئی تھی، آنکھوں میں عجب سا خوف ابھر آیا تھا جب کہ رضیہ کہہ رہی تھیں۔ ”تم نے رجاء کی عزت بچائی، محلے میں کسی کو خبر نہیں ہونے دی ورنہ اس دور میں لوگ دوسروں کے عیب تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں اور سوئی کو بھالا بنا کر دوسروں کو رسوا کرتے ہیں، یہ تو نیک لوگوں کی فطرت ہوتی ہے جو دوسروں کو خوشیاں دیتے ہیں ان کے عیبوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔
“ 

”شرمندہ نہ کریں آپا! میں تو بہت گناہ گار بندی ہوں، میرا بال بال گناہوں کی خاک میں اٹا ہوا ہے۔ “ وہ لرزتی آواز میں بولیں۔

”یہ بھی نیک لوگوں کا وطیرہ ہے۔ وہ خود کو گناہ گار سمجھتے ہیں، عاجزی انکساری ان کا وصف ہوتی ہے دراصل ایسے لوگ اللہ کے منتخب بندے ہوتے ہیں، جن سے اللہ اچھے کام لیتا ہے۔ “ رضیہ محبت بھرے انداز میں کہہ رہی تھیں اور ماہ رخ کے اعصاب پر ایک بوجھل پن حادی ہونے لگا تھا۔
ان کی ممنونیت و عقیدت، ان کے احترام سے لبریز لفظ ان کو اپنے چہرے پر تمانچوں کی مانند لگ رہے تھے۔ ان کو لگ رہا تھا ان کی پلکوں پر منوں ٹنوں بوجھ رکھ دیا گیا ہو۔ وہ بوجھ، وہ شرمندگی، وہ ندامت جو ان کو کبھی اس نیک فطرت و سادہ مزاج عورت کے آگے نگاہ اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑے گی۔” تم جیسی نیک و پاکباز عورت کے ہاتھوں رجاء رخصت ہو، میں یہی چاہتی ہوں، یہی خواہش ہے میری۔“ رضیہ کہہ رہی تھین۔ ماہ رخ کا ذہن ایک دم ماوٴف ہوگیا ، دل و دماغ میں صرف یہی گردان تھی۔

نیک و پارسا عورت…

جن سے اللہ اچھے کام لیتاہے۔

اللہ کی منتخب کردہ …!

   2
0 Comments